کہوں کس سے میں کہ کیا تھے وہ جو رہبرِ زمانہ
وہ ہر دلعزیز طیب وہ ہی فاتحِ زمانہ
وہ قرآں کے تھے محافظ وہ قرآں کے تھے معارف
وہ ہی ان کی رگ و پے میں وہ ہی ان کا تھا خزانہ
وہ تھے حامیانِ سنت وہ تھے قاطعاتٍ بدعت
نہ غلو تھا زندگی میں وہ ہی چالِ درمیانہ
جو تھے سادگی میں یکتا جوتھے عاجزی میں یکتا
نہ طلب تھی خسروی کی نہ اندازِ خسروانہ
وہ تھے نیکیوں کے خوگر وہ تھے خوبیوں کے پیکر
جو قدم بھی اٹھتے اٌن کے وہ قدم تھے فاتحانہ
یہ جو دین کی تھی خدمت تو بے لوث ہی یہ ہوتی
نہ طلب تھی اس سے شہرت نہ ہی مال اور خزانہ
جو نگاہ اٌن کی ہوتی وہ نگاہِ مشفقانہ
جو کلام اٌن کا ہوتا وہ کلامِ عارفانہ
جو خطاب اُن کا ہوتا وہ خطابِ ناصحانہ
جو ادا بھیان کی ہوتی وہ ادائے دلبرانہ
جو عمل بھی اُن کا ہوتا وہ عمل بھی مخلصانہ
جو نوا بھی ان کی ہوتی وہ نوائے عاشقانہ
کوئی آتا اٌن کے در پر وہ پاتا ان کو رہبر
وہ دکھاتے راہ حق کی وہ تھے مرشدِ زمانہ
نہ گِلہ کسی کا ہوتا نہ ہی لب پہ تھی شکایت
کہ وہ ذات بے ضرر تھی رہا معترف زمانہ
یہ ہی اثر کی دعا ہے کہ ہوں وہ غریقٍ رحمت
تو قبول ہو ہی جائے جو مشن تھا مخلصانہ