حقیقت سے کبھی آنکھیں چرا کر کچھ نہیں ملتا
خیالوں میں کوئی دنیا بسا کر کچھ نہیں ملتا
نہ پوچھو دوستو مجھ سے محبت کا مری حاصل
کہ راہِ عشق میں سب کچھ لٹا کر کچھ نہیں ملتا
وہ رستہ چھوڑ دیتے ہیں جہاں معدوم ہو منزل
کہ یونہی گرد راہوں میں اڑا کر کچھ نہیں ملتا
کبھی نہ وقت سے پہلے شجر پہ پھیکنا پتھر
کہ شاخوں سے ثمر کچے گرا کر کچھ نہیں ملتا
جو عالی ظرف دشمن ہو اسی سے دشمنی رکھنا
کسی کم ظرف کو نیچا دکھا کر کچھ نہیں ملتا
یہ کہہ کر باپ کو رخصت کیا اولاد نے گھر سے
کہ بوڑھے بیل کو چارہ کھلا کر کچھ نہیں ملتا
خدا سے التجا ہے کہ میسر گور ہو جاۓ
یہاں اونچے محل دیپک بنا کر کچھ نہیں ملتا