حقیقت کا اصل آئینہ کوئی دکھائے مجھے
جھوٹ کل تھا یا آج کوئی سمجھائے مجھے
وہم و گماں میں سو گیا ہوں میں گہری نیند
خدا کے واسطے ہی کوئی آ جگائے مجھے
کہاں کمی تھی بھلا میری دعاؤں میں ، فریادوں میں
اے خالقِ دو جہان اب آپ ہی بتلائے مجھے
گزارش ہے صنم انکار مت کی جیئے گا
کیسے بھول جاتے ہیں یہ ہنر سیکھائے مجھے
دو جسموں کو جدا کر کے مسکراؤ نہ لوگوں
ایسا دن ہی نہیں کوئی خیال اُس کا نہ ملنے آئے مجھے
مَیں قید میں ہوں اُس کی نگائے طلسم میں
بلاؤ کسی عالم کو جو چھڑائے مجھے
نہال شاعری میں ذکر ہے جس پَری کا
اُسی کومل پَری کی کچھ داستان سنائے مجھے