حقیقت کا یوں تو اظہار سا ہے
ہر اک رستہ یہاں دشوار سا ہے
وہ ایسا کون ہے جس سے بچھڑ کر
خود اپنے گھر کی ہی دیوار سا ہے
میں اس سے بے تعلق بھی رہی ہوں
جو میری روح میں بیدار سا ہے
وہ خود ہارا ہوا ہے زندگی سے
یہ لہجہ جس کا جو تلوار سا ہے
محبت کی اور اس سے کیا ہو تمنا
جو پھولوں میں رہ کر بھی خار سا ہے
گلوں سے ہی ہر اک کی راہوں میں آؤ
یہ حلقہ یاراں تو خوں خوار سا ہے
خبر تجھ کو ہے میرا نخلِ تمنا
لکھوں وشمہ نہیں گلزار سا ہے