حقیقت کو چھپانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
Poet: وشمہ خان وشمہ By: وشمہ خان وشمہ, ملایشیاحقیقت کو چھپانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
مرے ہونے نہ ہونے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
کسی کو کیسے بتلاؤں مرے دل کا ہے کیا عالم
بڑی مشکل بھلانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
نظر آتے نہیں روشن سحر کے دور تک آثار
گماں تھا کٹ ہی جانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
مرا آئینۂ احساس حیراں ہو نہیں سکتا
یقیں کا نور کر نے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
مری آنکھوں میں اک موسم ہمیشہ سبز رہتا ہے
خدا جانے ہیں لانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
کناروں پر تمہارے واسطے موتی بہا لائے
گھروندے بھی لگانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
نہیں معلوم آخر کس نے کس کو تھام رکھا ہے
وہ مجھ میں گم ہے پانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
ابھی زندہ ہیں ہم پر ختم کر لے امتحاں سارے
تو پھر کیاآزمانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
بہت کچھ فرق وشمہ آ چلا ہے داستانوں میں
ستم ہی سکھلانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
وشمہ خان وشمہ
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






