اِک روز جب میں اُس سے گویا ہوا
تھا کہیں کسی سوچ میں وہ کھویا ہوا
کہا میں نے کہاں گُم تھے
جواب سارے ہی اُس کے مبہم تھے
پھر وہ کسی رو بہنے لگا
خود ہی مجھ سے کہنے لگا
مجھ کو تو شاید محبت ہو گئی ہے
کہا میں نے عقل تیری لگتا ہے کھو گئی ہے
بھلا یہ بھی کرنے کا کوئی کام ہے
یوں کہہ لو کہ یہ تو بہت ہی بدنام ہے
دیکھا ہے میں نے وعدوں کے بنتے بھی
پھر دیکھا ہے زبانوں سے بدلتے بھی
محبت کی زنجیروں کو بھی دیکھا ہے
اُلٹتی ہوئی تدبیروں کو بھی دیکھا ہے
لگا کہنے یہ تو بس تیرا خیال ہے
میری تو محبت ہی لازوال ہے
محبت تو وہ ہے جو دِلوں کو محصور کر دے
حالات کو بھی حق میں اپنے مجبور کر دے
کہا میں نے خود فریبی تو دھوکہ ہے
لگا کہنے مجھے خود پہ بھروسہ ہے