حناٸی دستِ نازک میں تو دیکھو زور کی صورت
شکستہ دل کیا اس پر نہ چھوڑی شور کی صورت
نہیں خاطر میں لاٸے آرزوٸے عاجزانہ کو
قدم سے روند کے کوٸی نہ رکھی غور کی صورت
سہے ہنس ہنس کے، نہ کوٸی گلہ یوں بھی کیا جاناںؔ
تری صورت حسیں کتنی ہے ظلم و جَور کی صورت
چُراکے دل چُرالی ہے نظر، میرا نہیں دعویٰ
مگر محفل میں خود کترا گٸے ہو چور کی صورت
سنا ہے ہم نے کہ تاریخ دہراتی ہے اپنے کو
جو یوں ہے تو دکھادے پھر پرانے دور کی صورت
مسافر کو سراٸے عام نہ منزل دکھاٸی دے
سجاٸے رکھتا ہوں آنکھوں میں اپنی گور کی صورت
جُڑا ہے رشکؔ تارِ عشق سے مثلِ نگیں گوہر
بظاہر درمیاں کوٸی نہیں ہے ڈور کی صورت