حُور دُنیا میں ملی تھی ، پر مری مانے گا کون
جنت اَپنے گھر میں ہی تھی ، پر مری مانے گا کون
غنچے اُڑتے پھر رہے تھے روشنی میں اَبر کی
چاندنی خوشبو بھری تھی ، پر مری مانے گا کون
خوشنما ، قوسِ قُزح تھی ، جگنوؤں کے جسم پر
تتلیوں میں روشنی تھی ، پر مری مانے گا کون
ریت کی برکھا میں دُھل کے ، کھِل اُٹھے تازہ گلاب
بارِشوں میں تشنگی تھی ، پر مری مانے گا کون
شَہرِ خاموشاں میں نِصفِ شَب کی سُوئیاں ملتے ہی
زِندگی ہی زِندگی تھی ، پر مری مانے گا کون
آنکھوں دیکھا واقعہ ہے ، ایک ضِدّی دِل رُبا
اِس غزل پر مر مٹی تھی ، پر مری مانے گا کون
مُلک میں وُہ اَمن تھا کہ بادشہ کے حُکم پر
’’جُرم‘‘ کی گھنٹی بجی تھی ، پر مری مانے گا کون
آئینے سے جب ذِرا سا ، دُور ہٹ کے رو پڑے
عکس نے آواز دی تھی ، پر مری مانے گا کون
شاخ سے بچھڑی کلی پہ ، شبنمی قطرے نہ تھے
وُہ تو تتلی رو رہی تھی ، پر مری مانے گا کون
شک پرست اِحباب کو میں ، قیس گو یہ کہہ تو دُوں!
یہ غزل ’’کچھ‘‘ عام سی تھی ، پر مری مانے گا کون
شہزاد قیس کی کتاب "لیلٰی" سے انتخاب