حیف تو نے نہیں سمجھا مجھے انساں جاناں
بندہٴ عشق ہوں میں اور پریشاں جاناں
”زندگی تیری عطا تھی سو ترے نام کی ہے
میں نے جیسے بھی بسر کی ترا احساں جاناں“
غم و اندوہ میں جیئیں یہ ہماری قسمت
ہے یہی اپنے لیے عظمتِ ذی شاں جاناں
پھول کے مثل رہو شاد و شگفتہ ہر دم
زندگی صبح کی صورت ترے شایاں جاناں
اب بھی آمادہٴ الفت ہے مری جراتِ شوق
اب بھی ہو سکتا ہوں سو جان سے قرباں جاناں
اب بھی طالب ہے مری آنکھ ترے حسنِ وفا کی
میری جانب بھی ہو اک رمزہٴ مژگاں جاناں
اک نظر اپنے خلیلی# کی طرف ہو تاکہ
جگمگائے مری الفت کا شبستاں جاناں