خامشی کی وہ دیوار گرا دیتا
میں کوئی دور تھا،اک بار صدا دیتا
میں چلا آتا بامثل باد بہار
خزاں کے موسم میں بھی گر بتا دیتا
یا پھر اک زخم نیا مجھ کو دیتا جاتا
یا ہجر پوش کوئی مجھ کو ردا دیتا
وہ سمجھتا تھا کہ ہیں سارے گناہ میں نے کیے
میرے ناکردہ تھے ،چاہے وہ سزا دیتا
میں کے سایہ دیوار کے ساتھ تھا خاموش کھڑا
جاتے جاتے وہی دیوار گرا دیتا
تو فریدی بھی ہے بے وجہ ہی نالاں اس پر
ایسے حالات میں وہ اور تمہیں کیا دیتا