دلبر سے درد دل کہوں مامور ہو گیا
خاموش اس کے غم میں رہوں چو ر ہو گیا
اس شوخ سے جدا میں رہوں ہائے کب تلک
یہ ظلم یہ ستم سہوں مجبور ہو گیا
رہتا ہے روز ہجر میں ظالم کے غم مجھے
اس دکھ سے دیکھیے کہ میں رنجور ہو گیا
کیا کیا خرابیاں میں ترے واسطے سہیں
کرنے تھے جن میں عیش و ہ دستور ہو گیا
آئی بہار جائیے صحرا میں شہر چھوڑ
مجھکو جنوں ہے گھر سے وہ دور ہو گیا
غم وصل میں ہے ہجر کا ہجراں میں وصل کا
گویا کہ ان کے ظلم سے محصور ہو گیا
ظالم کو ٹک بھی رحم مرے حال پر نہیں
وشمہ میں اسکے ظلم سے ہی چور ہو گیا