خاموشیوں کے طوفاں کو یوں نہ الجھایا کر
اپنی حالت زار سے کچھ تو بتایا کر
مُسرت ہے بھی تو اِس کا اعتراف کرلے
ہر شوخی کو یوں بار بار نہ ستایا کر
ہم قوی نہیں تو قائل بھی نہیں ہیں
مگر اتنا قریب رہ کر کبھی تو آیا کر
سب کچھ نرخ کے برعکس نہیں ہوتا
یہ مجال ہیں دلوں کے اِنہیں بہلایا کر
اساس زندگی سے ہم بھی دوُر رہے ہیں
تو اپنی بدری کا انتشار نہ پھہلایا کر
سرکشی بھی کہیں کہیں پُرآشوُب نہیں رہتی
گردش حالتوں کو سنتوشؔ غور سے سمجھایا کر