خاموشیِ دل مجھ سے یہ اظہار کرے ہے
راتوں کو جو اکثر مجھے بیدار کیا ہے
ان آنکھوں نے دیدار ترا جب سے کیا ہے
اس دن سے تجھے آج بھی دل پیار کرے ہے
تم لاکھ چھپاتی رہو ان پردوں میں خود کو
پردوں میں بھی دیوانہ یہ دیدار کرے ہے
معلوم نہیں مجھ کو تو مل پائے گی لیکن
یہ سوچ تجھے پانے کا اصرار کرے ہے
اس طرح جلاتے ہو سوال آتا ہے دل کو
کیا ؟ خون جلانے کا تو بیوپار کرے ہے
دیوانوں کے ہر عزم سے واقف ہے زمانہ
پھر ان میں کھڑی جانے کیوں دیوار کرے ہے
محفل میں تو ہونٹوں پہ ہیں خاموشی کی مہریں
تنہائی میں تلوار سی گفتار کرے ہے
مشکور ہیں اس صاحبِ الفاظ کے ضیغم
جو میرے سبھی لفظوں کو اشعار کرے ہے