خاک پہ رہتے خیال آسمان کی رِدا بن گئے
بھڑک کر اٹھے جو بہتان تو قضا بن گئے
میں میری ہی طبیعت میں منتشر لگتا ہوں
باقی حشر جو ٹھہرے تھے وہ حیا بن گئے
تم بھی تو انہیں آنے کا کہہ گئے تھے
اس کے بعد نین بھی جیسے آسرا بن گئے
آکر دیکھو کبھی اِن اجڑے مکینوں کا حال
تیری عشق میں لوگ کیا سے کیا بن گئے
ان مزاج تاریکیوں میں اکیلے نہ گھما کرو
یہاں پہلے سے ہی کچھ وجُود تنہا بن گئے
کچھ ایسی بھی ہیں اعتماد کی حدیں سنتوشؔ
کہ میری عبادتوں سے پتھر خدا بن گئے