فون پر جب اس سے بات ہو جاتی ہے
میری زیست کی وہ یادگار ساعت ہو جاتی ہے
مال و زر کا جن کو سہارا نہیں ہوتا
ان کی بھی تو گزر اوقات ہو جاتی ہے
کئی بار تو انسان ایک خوشی کو ترستا ہے
کبھی کبھی مسرتوں کی بہتات ہوجاتی ہے
ہم کیا کیا ارمان لے کر دنیا میں آتے ہیں
مگر زندگی نذر حالات ہو جاتی ہے
میں اس کے خیالوں میں کھویا رہتا ہوں
پتہ نہیں چلتا اور ختم رات ہو جاتی ہے
اس کی یاد آتے ہی نہ جانے کیوں
آنکھوں سےآنسوؤں کی برسات ہوجاتی ہے
حقیقت میں تو اس سے ملنا محال ہے
ہاں رات کو خوابوں میں ملاقات ہو جاتی ہے