وہاں لے چل مجھے جہاں تنہائی نہ ہو
پر سوا تیرے کسی سے شناسائی نہ ہو
کہیں مل جائیں اگر ہم ایک بار صنم
جان من پھر ہم میں کبھی جدائی نہ ہو
ہوتی بڑی بے رونق یہ دنیا ساری
اگر بستی اس میں خدا کی خدائی نہ ہو
سناتا ہوں میں تمہیں آج ایک داستان
جو پہلے کھبی کسی نے سنائی نہ ہو
نہ پوچھو حال میرے دل کے جلنے کا شاکر
پوچھو اس سے جس نے شمع جلائی نہ ہو