اۓ خداۓ محپت! تم بنا لیتے ہو نۓامتی لیکن
ہم سے تو تیری بندگی چھوڑی نہیں جاتی
ہے یادوں کا تسلسل، گو کمزور ہے لیکن
ہم سے یہ کڑی پھر بھی توڑی نہیں جاتی
گو عشق کا دیمک چاٹ گیا ذات کا شہتیر
عادت یہ بری ہے، مگر چھوڑی نہیں جاتی
غزل گوئ ہے پوشاک مرے تخیل کے بدن کی
ھم سے قصیدوں کی قبا اوڑھی نہیں جاتی