خطاء تو میری تھی
جو تم سے دل لگا بیٹھی
جانے انجانے میں
تمہیں اپنا بھناء بیٹھی
خطاء تو میری تھی
تم تو تھے مسافر
تمہیں راستہ دیکھتے دیکھتے
تمہیں اپنی منزل بھناء بیٹھی
خطاء تو میری تھی
تم تو اناوں کی گھر تھے
تمہیں چاہیتے میں اپنی
سب انایئں گنوا بیٹھی
خطاء تو میری تھی
تم تو تھے اک پرندے کی مانند
اور میں تمہیں اپنا
گھونسا بھناء بیٹھی
خطاء تو میری تھی
زندگی تو شروع سے ہی
بہت دشوار تھی میری جاناں
مگر تمہیں چاہ کر میں
خود کو ہی بھلا بیٹھی
خطاء تو میری تھی
تم تو وہ گلاب تھے
جو خوشی سے ہر اک کی
زلفوں کی زینت بن جاتے تھے
اور میں تمہیں اپنے دل کے
آنگن میں لگا بیٹھی
خطاء تو میری تھی
سب جانتی تھی رسمیں الفت کو
پل میں ٹوٹ جاتے رشتوں کو
پھر بھی نجانے کیوں اک
اجنبی پے اعتبار کر بیٹھی
خطاء تو میری تھی
پہلے ہی دن سے سمجھ گئی تھی
تیری عادت کو پھر بھی تجھے
بدلنے کا کیوں ٹھان بیٹھی
خطاء تو میری تھی
ُتو میرے رنگ میں اک پل
کہ لیے بھی خود کو نا رنگ سکا
اور میں تیرے رنگ میں
خود کو رنگتی اپنے سارے
رنگ چھپا بیٹھی
خطاء تو میری تھی
تیری روکھے لہجے کو
میں تیری ادا سمجھ بیٹھی
ُتو بے وفا تھا اور میں
تجھ سے وفا کر بیٹھی
خطاء تو میری تھی