خطاء تو میری تھی
Poet: AF(Lucky) By: AF(Lucky), Saudi Arabiaخطاء تو میری تھی
جو تم سے دل لگا بیٹھی
جانے انجانے میں
تمہیں اپنا بھناء بیٹھی
خطاء تو میری تھی
تم تو تھے مسافر
تمہیں راستہ دیکھتے دیکھتے
تمہیں اپنی منزل بھناء بیٹھی
خطاء تو میری تھی
تم تو اناوں کی گھر تھے
تمہیں چاہیتے میں اپنی
سب انایئں گنوا بیٹھی
خطاء تو میری تھی
تم تو تھے اک پرندے کی مانند
اور میں تمہیں اپنا
گھونسا بھناء بیٹھی
خطاء تو میری تھی
زندگی تو شروع سے ہی
بہت دشوار تھی میری جاناں
مگر تمہیں چاہ کر میں
خود کو ہی بھلا بیٹھی
خطاء تو میری تھی
تم تو وہ گلاب تھے
جو خوشی سے ہر اک کی
زلفوں کی زینت بن جاتے تھے
اور میں تمہیں اپنے دل کے
آنگن میں لگا بیٹھی
خطاء تو میری تھی
سب جانتی تھی رسمیں الفت کو
پل میں ٹوٹ جاتے رشتوں کو
پھر بھی نجانے کیوں اک
اجنبی پے اعتبار کر بیٹھی
خطاء تو میری تھی
پہلے ہی دن سے سمجھ گئی تھی
تیری عادت کو پھر بھی تجھے
بدلنے کا کیوں ٹھان بیٹھی
خطاء تو میری تھی
ُتو میرے رنگ میں اک پل
کہ لیے بھی خود کو نا رنگ سکا
اور میں تیرے رنگ میں
خود کو رنگتی اپنے سارے
رنگ چھپا بیٹھی
خطاء تو میری تھی
تیری روکھے لہجے کو
میں تیری ادا سمجھ بیٹھی
ُتو بے وفا تھا اور میں
تجھ سے وفا کر بیٹھی
خطاء تو میری تھی
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






