یہ خلش یونہی ہے مٹتی
اسے تو اگر مٹائے
کہ جگر مرا ہے چھلنی
کہ نفس ہے پارہ پارہ
ابھی دل ہے یوں سلگتا
بجھی راکھ میں شرارہ
میرے نامہ بر ہیں کندہ
تیری بام تک نہ پحنچے
تیری ایسی بے نیازی
کہ سلام تک نہ پحنچے
ابھی سن گہ آرزو کو
ملے لمحہ بھر سہارہ
ابھی آ کہ منتظر ہے
میرا آخری ستارہ
ابھی جل کے بھسم ہونے میں
کوئ لمحہ ہے باقی
ابھی جام پر ہے گردش
ابھی محرباں ہے ساقی