خلوتِ آفاق ہے ہر جا کہ جینا دشوار ہوا ہے،
نیند کھو گئی میری تجھ سے جو پیار ہوا ہے،
مفلسی بڑھ گئی مری حالت نازک ہے یارو
علاج نہیں ہوتا مجھے عشق کا بخار ہوا ہے،
اُن جگہوں پے اب پنچی بھی نہیں آتے
ترے جانے سے وہ شہر یوں اُجاڑ ہوا ہے،
ضرورت تری مرے ہر اِک دن کو ہے
سرد راتوں میں بھی ترا شدت سے انتظار ہوا ہے،
رہا بالکل نہیں مرا مرے دل پے جاناں!
جب سے ترا مرے دل پے اختیار ہوا ہے،
آہ و زاری کرتا ہے تری یاد میں نہال
کیا بتائوں دل کتنا بے قرار ہوا ہے،