خواب آنکھوں میں سجاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
غیر کو اپنا بناتے ہوئے ڈر لگتا ہے
اس کو ملنا ہے اگر مجھ سے تو خود آگے بڑھے
مجھ کو کشکول بڑھاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
اپنی ہی سیج پہ آشاؤں کا لاشہ کیسا
غم کو اب پاس بلاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
اس کی آنکھوں سے کبھی پیار کا کاجل لے کر
اپنی پلکوں پہ سجاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
پہلے ہی قحط کا عالم ہے مرے چاروں طرف
اپنا اب باغ جلاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
زندگی پیار کی صورت ہو تو بہتر وشمہ
ورنہ یوں ساتھ نبھاتے ہوئے ڈر لگتا ہے