خواب اتنے تھے کہ آنکھوں سے سنبھالے نہ گئے
ہو کہ دشمن بھی حسن والے کبھی ٹالے نہ گئے
اک مدت سے تیری یاد آتی بھی نہیں
آج تک دل سے مگر تیرے اجالے نہ گئے
حال دل تجھ کو سناتے تو کیسے جاناں
زباں سے توڑے تو کبھی ہونٹوں کے تالے نہ گئے
بدل گئیں ہیں سب رسمیں زمانے کی مگر
اے دوست تیرے وہ انداز نرالے نہ گئے
چین پاتے تو کہاں کیسے بھلا کس کے بدلے
موت آئی تو اس الفت کے ازالے نہ گئے
دل کی راہوں میں الفت کی زنجیریں دیکھو
جانے والے بھی کبھی اس سے نکالے نہ گئے