نظیر اس کی ملے کہاں کوئی اس کا نظیر ہو
لا محالہ نہ کرے جنبش جو زلف کا اسیر ہو
نامکمل ہے ابھی تصویر ادائے جاناں کی
رنگ نا پید ہے کہ جو نظر کا تیر ہو
صنم پرستوں پہ تو ہوئیں ہر جا ظلمتیں نازل
مئے کدہ ہو سینا ، فاراں ہو کہ شعیر ہو
کوئی ایساجو ہٹا ئے بے حسی کے پردے
کوئی ایسا ہو کہ جو صدائے ضمیر ہو
یہی وقت دعا ہے جو کھڑا ہے تیرے در پہ
ممکن ہے نہ لوٹ کے آئے خدار فقیر ہو
بھیجا ہے ان کو میں جذبہ وفا کا موتی
آنسو میرا تیری نظر میں ممکن ہے حقیر ہو
پہنچنا ہے فلک کے اس پار اے راہبر
خواب ادھورے ہیں میرے کاش کہ تعبیر ہو
کھنچے چلے آئو گے تم در عیاز پر
وصل ہمار منظور گر کاتب تقدیر ہو