میرا خواب تیرے خواب جیسا ہے
چہرہ تیرا حسین غلاب جیسا ہے
لگی ہے پیاس ہمیں تیرے پیار کی
مگر تو تو بہت دور ،سراب جیسا ہے
پیا جو زہر ساغر میں تیرے ہاتھ سے
زہر بھی کچھ کچھ شراب جیسا ہے
ایسا نہ ہو کہ آنسو بہا لوں رو رو کے
دیکھو میرا ہر آنسو سیلاب جیسا ہے
دیکھی ہے ہم نے جوانی پھولوں پہ شاکر
قسم سے ہر پھول تیرے شباب جیسا ہے