آنکھوں میں غزالی رباب لئے پھرتے ہیں
بہکانے کو شوخی شباب لئے پھرتے ہیں
پیاسا رکھے یا جی بھر کر سیراب کردے
دل والے تو دل میں کئی خواب لئے پھرتے ہیں
کسی روز جو اچانک ملاقات ہو ان سے
اپنے ہاتھ میں ہمیشہ اک گلاب لئے پھرتے ہیں
دوستی کیسے کریں نہ بھروسہ ہے نہ بھرم
ستمگر چہروں پر کئی نقاب لئے پھرتے ہیں
منا لیں گے ملو گے تو دلیلیں تمہیں دے کر
ہم زمانے کے سب ہی نصاب لئے پھرتے ہیں
چاہتیں آسانیوں سے کب ملا کرتی ہیں
شب و روز سینے میں نئے عذاب لئے پھرتے ہیں
خاصہ مجھ کو وراثت میں یہ ملا ہے بلال
فقیری میں بھی شاہی آب و تاب لئے پھرتے ہیں