خواب کو بس خواب رہنے دو
مرے جذبات کو با حجاب رہنے دو
دل ویران میں سجائے ہیں یاد کے کئی گلشن
میں تو صحرا کا ایک پھول ہوں بے آب رہنے دو
سورج کی روشنی شعلوں کی ہی بدولت ہے
جلنا اس کی فطرت ہے آب تاب رہنے دو
زندگی پل دو پل گراں تھی مگر پھر بھی
ناکامئی عشق کو غلطیءشباب رہنے دو
سُروں کی محفلیں عروج پر ہیں اے دل
ساز کی تاروں کو کچھ دیر بے تاب رہنے دو
میں لہروں سے لڑ کر آیا ہوں تڑپنے دو
اسی تڑپ میں مزہ ہے ماہی بے آب رہنے دو
زندگی پھول ہے نہ کرن نہ کلی نہ خوشبو
بس درد کی کہانیاںہیں اسے کتاب رہنے دو
عشق کہیں دور مرے دل سے آواز دیتا ہے
سدا آگ کے شعلوں پر خود کو کباب رہنے دو