حُسن والوں سے محبت کو بڑھا سکتے ہیں
خواب کی بات بھی آنکھوں سے سنا سکتے ہیں
زندگی اپنی یہ پھولوں کی کوئی سیج نہیں
کوئی نغمہ تو محبت کا سنا سکتے ہیں
چاند کاٹے گا کہاں رات سہانی اپنی
چاند چہرے پہ اگر آج مسکرا سکتے ہیں
مرے چہرے پہ غمَ دشت کی پر چھائی ہیں
مجھ کو اب پیار کا پیکر تو بنا سکتے ہیں
مجھ سے کیوں دور بسایا ہے زمانہ تو نے
دل کی مسجد میں کبھی بیٹھ دعا سکتے ہیں
تیری تصویر خیالات میں رہتی ہے سدا
کوئی ایسی بے قراروں کو بھلا سکتے ہیں
موسمِ گل پہ بھی کیوں آج خزاں ہے بھاری
شام اتری تو کئی زخم دکھا سکتے ہیں
لوگ کرتے ہیں زمانے میں وفا کی باتیں
جیسے سب عشق کے ماروں کو ملا سکتے ہیں
ایسی تنہائی سے بہتر ہے فنا ہو جانا
غم کی اس دھوپ میں زلفوں کو گھٹا سکتے ہیں
وہ جو بچھڑا تو پریشان خیالات رہے
وشمہ اس درد کے عالم کو بتا سکتے ہیں