خواب ہیں تو خواب
Poet: UA By: UA, Lahoreخواب ہیں تو خواب کی تعبیر ہونی چاہیے
تعبیر کے لئے مگر تدبیر ہونی چاہیے
جو دوسروں کے ساتھ تیرا عکس بھی دکھا دے
تیرے آئینے میں ایسی اک لکیر ہونی چاہیے
آپ جو کہتے ہیں سچ کہتے ہیں اے بندہ نواز
کہ میری گفتگو میں جا بجا تاثیر ہونی چاہیے
جو ہمیں اک دوسرے کے روبرو کرتی رہے
اک ایسی اپنے درمیاں زنجیر ہونی چاہیے
کوئی خطا کرنے سے پہلے اتنا سوچیے
کہ قابل معافی ذرا تقصیر ہونی چاہیے
اے طائران خوشن نوا تو گنگنائے جا
لیکن تیرے نغمات میں تاثیر ہونی چاہیے
جو اہل گلستان میں روح حیات پھونک دے
تیری صدا کچھ ایسی دلگیر ہونی چاہیے
اس کے ہنسی مذاق میں سنجیدگی بھی ہو
نمکین اور میٹھی یہ تحریر ہونی چاہیے
جو زندگی کے سارے رنگوں کی ترجماں ہو
میری دسترس میں ایسی تصویر ہونی چاہیے
جو کفر و شرک کے سبھی بت پاش پاش کر دے
مومن تیرے ہاتھوں میں وہ شمشیر ہونی چاہیے
عظمٰی جو بے حسی کی دیواریں توڑ دے
تقریر ایسی کر جو گمبھیر ہونی چاہیے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






