خواب یہ سارے بکھر جائیں گے رفتہ رفتہ
Poet: wasim ahmad moghal By: wasim ahmad moghal, lahore آپ تعبیر سے ڈرجائیں گے۔۔۔۔۔۔ رفتہ رفتہ
خواب یہ سارے بکھر جائیں گے۔۔۔ رفتہ رفتہ
بھر کے جاتے ہیں گلِ تر سے جو تیرا ۔۔دامن
آگ سینے میں بھی بھرجائیں گے۔۔ رفتہ رفتہ
ابھی آغازِ محبّت ہے ذرا صبر ۔۔۔۔۔۔۔کرو
تہمتیں اور بھی دھر جائیں گے۔۔۔ رفتہ رفتہ
ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے مجھ کو۔۔۔ ہر وقت
آپ وعدے سے مکر جائیں گے۔۔ رفتہ رفتہ
ہم سے بھی چاہئے ملناتمہیں ۔۔۔گاہے گاہے
ورنہ ہم جاں سےگذر جائیں گے۔۔ رفتہ رفتہ
اسی اُمیّد پہ جاری ہے محبّت کا۔۔۔۔۔۔ سفر
ہم تیرے دل میں اُتر جائیں گے ۔رفتہ رفتہ
ہے جنہیں دید کی اُمیّد تیرے ۔۔جلؤوں کی
لے کے وہ دیدہءِ تر جائیں گے۔۔۔۔ رفتہ رفتہ
شاعری شیشہ گری ہے تو پھر اے ۔جانِ وفا
آپ شیشے میں اُتر جائیں گے۔۔۔۔ رفتہ رفتہ
ہے تویہ مشقِ سخن جی کا زیاں ہی ۔۔۔لیکن
زخم کچھ اور نکھر جائیں گے۔۔۔۔ رفتہ رفتہ
تیرے عارض پہ مچلتے ہؤے شعلوں کی قسم
ہم سُلگتےہؤے مر جائیں گے۔۔۔ رفتہ رفتہ
ہم تو ہو جائیں گے رسوا یہاں۔۔چپکے چپکے
مگر مشہور تمہیں کر جائیں گے ۔ رفتہ رفتہ
قافلہ عشق کا چلتا ہی رہے گا۔۔۔۔۔ یونہی
دوسرے سارے ٹھہر جائیں گے رفتہ رفتہ
زخم دل کے تو کبھی ٹھیک نہ ہوں گے شائد
جسم کے گھاؤ توبھر جائیں گے۔۔رفتہ رفتہ
بال و پر پہ نہیں جذبوں پہ بھروسہ ۔کرنا
بال و پر تیرے بکھر جائیں گے۔ رفتہ رفتہ
ہم تو کچھ اور بکھر جائیں گے جاتے جاتے
اور وہ اور سنور جائیں گے۔۔۔ رفتہ رفتہ
آج یہ سوچ کے بیٹھا ہے سرِ راہ۔۔ وسیم
آپ آئیں گےتو گھر جائیں گے۔ رفتہ رفتہ
راہِ نیکی میں تو سچے لوگ بھی ٹوٹ جاتے ہیں
دوست جو ساتھ تھے کبھی نڈر ہمارے اے میاں
وقت کے ساتھ وہ سبھی ہم سے اب چھوٹ جاتے ہیں
ہم چھپائیں کس طرح سے اب محبت کا اثر
دل کے گوشوں سے وہ جذبے خود ہی اب پھوٹ جاتے ہیں
کچھ جو خوابوں کے نگر میں لوگ تھے نکھرے ہوئے
ہو کے بکھرے وہ ہوا کے ساتھ ہی لوٹ جاتے ہیں
جو کیے تھے ہم نے دل کے اس سفر میں وعدے سب
وقت کی قید میں وہ سارے ہم سے اب روٹھ جاتے ہیں
پھول کی خوش بو کی صورت تھی ہماری یہ وفا
یاد کے عالم میں اب وہ سب ہی بس چھوٹ جاتے ہیں
مظہرؔ اب کہتے ہیں یہ سب ہی فسانے پیار کے
کچھ حسیں لمحے بھی دل سے اب تو اتر جاتے ہیں
خواب بکھرے ہیں مرے اس دل کے ہی ویرانے میں
ہم کو تنہا کر دیا احساس کی اس دنیا نے
جیتے ہیں ہم جیسے جلتے ہوں کسی پیمانے میں
ہر قدم ٹھوکر ملی ہے، ہر جگہ دھوکا ملا
پھر بھی تیری یاد آئی ہے ہمیں زمانے میں
اپنے ہی گھر سے ملے ہیں ہم کو اتنے دکھ یہاں
بے وفا نکلے سبھی رشتے اسی خزانے میں
شمعِ امید اب تو آہستہ سے بجھنے لگی ہے
آگ سی اک لگ گئی ہے دل کے اس کاشانے میں
ہر سخن خاموش تھا اور ہر زباں تنہا ملی
غم ہی غم گونجا ہے اب تو بھیگے ہر ترانے میں
دل جسے سمجھا تھا اپنا سب ہی کچھ اے مظہرؔ
اب وہ بھی تو مل نہ سکا ہم کو کسی بہانے میں
نیک سیرت لوگ ہی دنیا میں روشن ہوتے ہیں
جس کی گفتار و عمل میں ہو مہک اخلاق کی
ایسے ہی انسان تو گویا کہ گلشن ہوتے ہیں
نرم لہجہ ہی بناتا ہے دلوں میں اپنی جگہ
میٹھے بول ہی تو ہر اک دل کا مسکن ہوتے ہیں
جن کے دامن میں چھپی ہو عجز و الفت کی ضیا
وہی تو اس دہر میں پاکیزہ دامن ہوتے ہیں
بات کرنے سے ہی کھلتا ہے کسی کا مرتبہ
لفظ ہی تو آدمی کے دل کا درپن ہوتے ہیں
جو جلاتے ہیں وفا کے دیپ ہر اک موڑ پر
وہی تو اس تیرگی میں نورِ ایمن ہوتے ہیں
تلخ باتوں سے تو بس پیدا ہوں دوریاں سدا
اچھے الفاظ ہی تو الفت کا کندن ہوتے ہیں
مظہرؔ اب اپنے سخن سے تم مہکا دو یہ جہاں
اہلِ دانش ہی تو علم و فن کا خرمن ہوتے ہیں
وقت آئے گا تو سورج کو بھی رَستہ دِکھا دیں
اَپنی ہستی کو مٹایا ہے بڑی مُشکل سے
خاک سے اُٹھیں تو دُنیا کو ہی گُلشن بنا دیں
ظُلمتِ شب سے ڈرایا نہ کرو تم ہم کو
ہم وہ جگنو ہیں جو صحرا میں بھی شَمعیں جلَا دیں
اَہلِ دُنیا ہمیں کمزور نہ سمجھیں ہرگز ہم وہ
طُوفاں ہیں جو پل بھر میں ہی بَستی مِٹا دیں
خامشی اپنی علامَت ہے بڑی طاقت کی
لَب ہلیں اپنے تو سوئے ہوئے فتنے جگا دیں
ہم نے سیکھا ہے سَدا صَبر و قناعت کرنا
وَرنہ چاہیں تو سِتاروں سے ہی مَحفل سَجا دیں
راہِ حق میں جو قدم اپنے نِکل پڑتے ہیں
پھر تو ہم کوہ و بیاباں کو بھی رَستہ دِکھا دیں
مظہرؔ اَب اپنی حقیقت کو چھُپائے رَکھنا
وقت آئے گا تو ہم سَب کو تماشا دِکھا دیں






