درد مجھ میں پَل رہا ہے بڑی دیر سے
دل میں کچھ جل رہا ہے بڑی دیر سے
منزلِ مقصود تک پہنچ نہیں پا رہا مگر
خواہشوں کا قافلہ چل رہا ہے بڑی دیر سے
شاید کہ تم نے یاد کیا ہے مجھے آج
سینے میں دل مچل رہا ہے بڑی دیر سے
ختم بھی نہیں کرتا میرا قصہ یہ ہجر
آہستہ آہستہ نگل رہا ہے بڑی دیر سے
بہار آئی ہی نہیں پلٹ کے واپس کبھی
غم کا ہی باد ل رہا ہے بڑی دیر سے
میری زندگی کا نظام درمیان میں تھم گیا
سورج نیا بھی نکل رہا ہے بڑی دیر سے
بیان ہوتا ہی نہیں درد دو شعروں میں
نہال لکھ اِک غزل رہا ہے بڑی دیر سے