خواہشوں کے پھول ہی چنتے رہے
روز اک مالا نئی بنتے رہے
دیکھتے ہی رہ گےٴ شب بھر گلی
چاپ تیرے پاؤں کی سنتے رہے
ہے یہاں بھی مصر کا بازار سا
سب حسیں سکوں میں ہی تلتے رہے
زندگی ایسی غزل تھی بیٹھ کر
جس پہ اہل_ علم سر دھنتے رہے
ہم بقولِ یار تھے خوشبو کوئی
وہ ہوا تھا اور ہم گھلتے رہے
ریزہ ریزہ ہو گیا وہ خواب بھی
جس کی ہم دہلیز پر ملتے رہے