خود اپنے صحن میں گردن جھکا کے ٹھہرے تھے
مکین شہر کے مجرم تھے ، گھر کٹہرے تھے
بدن کے پیڑ گھٹن میں نمو د کیا پاتے
ہوائیں پا بہ سلاسل تھیں، رت پہ پہرے تھے
میں اس کے لمس کی آواز چھو کے کیا کرتا
کہ میری انگلیاں گونگی تھیں، ہاتھ بہرے تھے
رگوں میں قحط کا پھر خوف رینگتا کیوں تھا
ہماری فصل کے خوشے اگر سنہرے تھے
اکیلی رانی کہاں تک مدافعت کرتی
کہ ابکے راج محل میں شگاف گہرے تھے