خود سے روٹھے پھر مناکر بڑے حیراں رہہ گئے
زندگی پہ یہ بھی ہنر لاکر بڑے حیراں رہہ گئے
سوچا کہ اپنے آپ سے عذر کی بخشش کیسے لائیں
ایک گہرا سانس اٹھاکر بڑے حیراں رہہ گئے
یوں تو وعظوں کے اعلان پہ اعتبار کہاں آیا
آوازوں سے عدم ملاکر بڑے حیراں رہہ گئے
پھول توڑنا اور پھینکنا تھی بچپن کی رونقیں
کسی کے بالوں میں سجاکر بڑے حیراں رہہ گئے
سوچتا تھا ہر قدم پہ ستم ہی کیوں ملتے ہیں
اپنا ہی گریبان جھانک کر بڑے حیراں رہہ گئے
بھیڑ میں تو ہم نے کھلواڑ کیا تھا زندگی کا
تنہائی میں خود کو پاکر بڑے حیراں رہہ گئے