ذہن و دل کی ہر دیوار پر
تمہارا ہی تو نقش سجا ہے
چاندنی راتوں کی تنہائی میں
تم سا کوئی ساتھ رہا ہے
گلستاں میں ہر پھول پر
تمہارا ہی گماں گزرا ہے
یاس کی راہ ہے لا متناہی
آس کا رستہ بہت کچا ہے
کاش وہ نظر آ جائیں
ہمیں کیا پگلا پن سوجھا ہے
ہم باز آئیں کہ تم سنبھلو
زخم تو روز اک نیا ہے
بیتے دن بنائیں زینت طاق نسیاں
خود فراموشی سے وقت کب ملا ہے
گزرے لمحوں کی بے کراں یاد
ناصر ڈوب ڈوب کے ابھرا ہے