خودی کی حالتوں پہ کوئی نگران نہ ملا
جیسے اپنی زندگی کو بھی کوئی عنوان نہ ملا
جو بھی راہ دیکھی بس چلتا ہے گیا
منزل ہی پوچھ لیتا مگر دھنوان نہ ملا
میں اِن فضاؤں میں بدر ہوکے رہہ گیا
اور تیرے آنچل کو کوئی بادباں نہ ملا
یادوں میں اُن کی آہٹیں بھی آجاتی تھی
اِن سلگتے خوابوں کو کوئی دربان نہ ملا
اس جہاں کی ہر تحکیم سے مجھے انکار تھا
اور تیرے رُخسار سے بھی کوئی فرمان نہ ملا
وہ ہم سے بڑا پردہ رکھتے تھے سنتوشؔ
کہ میرا ہی مجھ میں کوئی بِدوان نہ ملا