اب یقین و قیاس رہتے ہو
تم محیط حواس رہتے ہو
بن کے تنہایوں میں خیال اکثر
تم میرے آس پاس رہتے ہو
دل کے آنگن میں پھول سا بن کر
خوشبوؤں کا لباس رہتے ہو
گر یہ آنکھیں ہیں شاعری کی کتاب
اس کا تم اقتباس رہتے ہو
زخم کھا کھا کے جی رہے ہیں ہم
تم مگر کیوں حساس رہتے ہو
مجھ سے اتنا وہ پوچھ لے اشہر
اس قدر کیوں اداس رہتے ہو