خوشبو کی طرح آگے وہ دل میں اتر گیا
ویران حال کرکے نہ جانے کدھر گیا
گلہائے رنگ و بو میں بھی مستی غضب کی تھی
جس طرح خواب گاہ میں اک پل گزر گیا
میں شوق دید میں تھی کھڑی کتنی دیر تک
نظریں بچا کے مجھ سے وہ کیسے گزر گیا
اب زندگی کٹے گی صحرا کی دھوپ میں
جو وقت مہرباں تھا نہ جانے کدھر گیا
باغ و کا وہ زمانہ تھا ہر طرف
بے وقت ہی یہ وشمہ زمانہ بکھر گیا