چاند نکلا جو عید کا غمی سینے میں اُتر گئی
اِک آس تھی ترے آنے کی وہ بھی بکھر گئی
میں کھویا ہوا تھا ترے غم میں کچھ اِس قدر
خوشیاں لیے عید دستک دے دے کر گزر گئی
جب لوگوں نے بتایا کہ کل عید آئی تھی
دیوانگی دیکھئیے پوچھنے لگے کدھر گئی کدھر گئی
اچھا ہوا جو تُو نہ آیا اِس عید پہ بھی
جان چھُوتی ، جان چھُوتی مر گئے فکر گئی
ساون کی رِم جھم بھی عید کی خوشیاں بھی
اشکوں سے دامن بھیگ گیا دل سے ہو جدھر گئی
میں بھول گیا جس کی یاد کے افسانوں کو
عید آ کے کان میں کر اُسی کا ذکر گئی
اپنی اُداسی کے الزام تم لگاؤ نہ دامنِ عید پر
سچ تو یہ ہے نہال تمہاری قسمت ہی سڑ گئی