خوف سا حاوی رہا تدبیر سے ڈرتے رہے
تھی پڑی جو پاؤں میں زنجیر سے ڈرتے رہے
ہو گیا ہے اب عجب ماحول سارے شہر کا
آرزو شہرت لیے تشہیر سے ڈرتے رہے
جوڑ کے ساری کمائی پھر بنایا تھا جسے
اس کی خاطر عمر بھر شب گیر سے ڈرتے رہے
لاکھ کوشش ہم نے کی جس کو بھلانے کے لیے
ہو نہ جائیں پھر کہیں دلگیر سے ڈرتے رہے
جس محبت کے لیے دن رات مانگی تھی دعا
اس محبت کی مگر تشہیر سے ڈرتے رہے
زندگی بھر ساتھ رہنے کا وہ وعدہ بھول کر
ایک جھوٹے خواب کی تعبیر سے ڈرتے رہے
ڈر جنہیں لگتا نہیں تھا تیر یا شمشیر سے
عمر بھر وہ میری اک تحریر سے ڈرتے رہے