خون کے رشتے وفا کی جو علامت ہوتے
با خدا پھر تو وہ مانند عبادت ہوتے
عشق بھی تو نے کیا اپنی ضرورت جتنا
کاش کے ہم بھی کبھی تیری ضرورت ہوتے
اپنے وعدوں سے اگر تم بھی نہ مکرے ہوتے
میری نظروں میں بھی تم قابلِ عزت ہوتے
کتنی چاہت سے تجھے دل میں بسایا ہم نے
کاش ہم ہی تری بس آخری حسرت ہوتے
ساتھ یوں میرے اگر آج بھی ہوتے تم تو
سارے ہی خواب ہمارے بھی حقیقت ہوتے
لاکھ چاہا کہ تمہیں بھول ہی جاؤں یکسر
کاش تم میرے لیئے قابلِ نفرت ہوتے
کیسے کاٹوں تری ان ہجر کی راتوں کو میں
بعد مرنے کے مرے تم کہیں غارت ہوتے