خونی سا امبر لگتا ہے
پھر میرے ہی سر لگتا ہے
لٹنے کو اب کیا ہے باقی
کیسا تجھ کو ڈر لگتا ہے
اب تو گورستاں کی صورت
مجھ کو اپنا گھر لگتا ہے
روک نہ دے وہ سانسیں میری
بوجھ جو سینے پر لگتا ہے
شہر کے پاپوں کا الزام
بس میرے ہی سر لگتا ہے
جگ کہتا ہے جس کو مندِر
مجھ کو تیرا گھر لگتا ہے
ہر سودائی تب سوتا ہے
جب میرا بستر لگتا ہے
اس کے منہ پر خیر کی باتیں
پیچھے کوئی شر لگتا ہے
آنکھیں بند بھی ہوں میری تو
تیر نشانے پر لگتا ہے
سچ سچ دیپک کہتا ہے سب
جھوٹا جھوٹا پر لگتا ہے