خیالوں کی آوارگی تو بڑے عقاب اڑاتی ہے
جن کے پنکھ نہیں ہوتے ان کی مات ہوتی ہے
تیری بے رخی سے ہوا آتش لے کر
اِن صحراؤں میں پھر خلاب اڑاتی ہے
نفیس حسرتوں کا انوکھاپن تو دیکھو
کہ ہر خوشی ایک عذاب لاتی ہے
میری زندگی ہے، تم چاہو تو خیانت کرلو
لیکن یہ چیز ایسی کہ اپنا حساب لیتی ہے
جس کو چھُوہا وہ ستوں کا پایا نکلا
میری بندگی بھی کتنے عِتاب دیتی ہے
اک گستاخ نگاہ چلو تباہی ہی کہیں مگر
تیری ادا بھی کون سے آداب لاتی ہے