خیالوں کی چھایا ابھی سوچنا ہے
صنم کوئی اپنا ابھی سوچنا ہے
ہزاروں کو مجھ سے محبت کا دعویٰ
کسوٹی پہ لانا ابھی سوچنا ہے
کسے پیار ہے اور پیکار کس کو
ہے کیسے جتانا ابھی سوچنا ہے
فضائیں مکدر ہوس اور ہوا سے
کہیں دل لگانا ابھی سوچنا ہے
ہزاروں ہی پھندے ہیں ہر اِک نَفَس میں
یہ جیون بِتانا ابھی سوچنا ہے
ہر اِک چاہتا ہے بس اپنی سنانا
کیا کہنا سنانا ابھی سوچنا ہے
غزل رشکؔ نے چند لمحوں میں کہہ دی
ملا مرتبہ کیا ابھی سوچنا ہے