داد رسی کی کوئی سبیل نہیں ہے
مسند پہ جو بیٹھا ہےوہ عدیل نہیں ہے
حکام اور عوام کی ڈگر کو دیکھ کر
لگتا ہے کوئی ملک میں عقیل نہیں ہے
خواہش ہے کہ اس کے لئے یہ در کھلا رہے
گو وہ کسی طرح میرا کفیل نہیں ہے
پیمانہ کسی کی نظر میں کچھ بھی ہو مگر
دولت ہو جس کے پاس وہ ذلیل نہیں ہے
دو قومی نظریہ کی ہم نے باڑھ کاٹ دی
کوئی درمیاں ہمارے اب فصیل نہیں ہے
نقصِ امن ہوتا ہے جو تعریف نہ کریں
ایسا بھی وہ حسین اور جمیل نہیں ہے
کھاتا ہے مجھ سے زیادہ مگر لڑ نہیں سکتا
کیا کروں مرغا میرا اصیل نہیں ہے
بہتر ہے گزرے ڈولی کہیں اور سے اس کی
غصہ میرا ہوا ابھی تحلیل نہیں ہے
آنا مطب میں اس کا ہے ملنے کا بہانہ
یہ میں بھی جانتا ہوں وہ علیل نہیں ہے
وہ مانگ کر تو دیکھے مجھ سے میری جاں ریاض
یہ دل میرا تیری قسم بخیل نہیں ہے ۔۔۔