داستان اسیری اپنے سنا کر رویا وہ ھمیں سینے سے لگا کر رویا کون جانے کتنے غم اور الم کتنے؟ بس کاندھے پر سر جھکا کر رویا سسکیوں کی اک قطار سی باندھے ھچکیوں میں خود کو ڈبا کر رویا بان ٹوٹا آخر صبر کا بھی اپنے ھمیں بھی وہ خون رلا کر رویا