سرِ عام بازاروں میں رقص کرتا ہوا
مرا تو عشق ٹھہرا دنیا کے واسطے تماشا ہوا
احساسِ تشنگی رہا خدا کو پا کر بھی
اُس تحفے کے لیئے جو تجھ کو عطا ہوا
مری چشمِ نم میں تیری یادوں کے جو در کُھلے
اور کیا کر سکتا تھا سو گیا روتا ہوا
گر میرا پوچھا تو کہہ دینا دُنیا والو
ادھر سے گزرا تھا ترا ذکر کرتا ہوا