درِ خیال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
مجھے ملال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
تُو میرا ہو گا یا کھو جائے گا کہیں تُو بھی
اب اِس سوال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
گذشتہ رُت میں تو ماضی کے دُکھ تھے اور تُو تھا
اب مجھ کو حال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
بچھڑ کے تم سے ملوں گا تو پھر سے بچھڑوں گا
مجھے وصال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
تجھے عروج مبارک رہے مجھے تو خیر
ابھی زوال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
ہنر تمام ہوا داد مل گئی ہے تو کیا
مجھے کمال سے آگے نکل کے سوچنا ہے
عقیل درد کی پرچھائیاں کہاں تک ہیں
گذشتہ سال آگے نکل کے سوچنا ہے