اک درد کی مانند میں لفظوں میں نہاں ہوں
کہتے ہیں مجھے لوگ کہ میں شعلہ بیاں ہوں
میں جانتا ہوں اس کو بہت خوش ہے وہ اب بھی
وہ بھول چکی ہے کہ میں کیسا ہوں کہاں ہوں
سب کچھ ہی بدل ڈالا پھر اندازِ بیاں نے
میں اس کا یقیں تھا مگر اب اس کا گماں ہوں
لکھتا ہوں بے خوف اب پسِ دیوار کے قصے
کہتا ہے قلم میرا کہ میں تیری زباں ہوں
رکھتے ہیں جو غیروں کے لیے پیار کا جذبہ
ہاں ایسے قبیلے کا میں اک روحِ رواں ہوں