درد بہنے سے پریشان بھی ہو سکتا ہے
کوئی غم خانے میں حیران بھی ہو سکتا ہے
آئینہ حسن نکھارو گے اگر عشق کے ساتھ
رستہ آسان سے آسان بھی ہو سکتا ہے
نوکِ قرطاس پہ سورج یہ ہمارے غم کا
شعلہءِ ہجر کا سامان بھی ہو سکتا ہے
وہ جو تصویر کے اندر سے نکل آیا ہے
میرا دلدار ، مری جان بھی ہو سکتا ہے
اک نئی طرز کا لکھا ہے فسانہ جب تو
اک نیا پیار کا عنوان بھی ہو سکتا ہے
جس کو ہے سیجِ محبت پہ سلایا وشمہ
وہ فقط رات کا مہمان بھی ہو سکتا ہے