درد جب بے قرار کرتا ہے
ہر نفَس ذکرِ یار کرتا ہے
ہم تمنا ہزار لاتے ہیں
وہ بہانے ہزار کرتا ہے
درد دیتا ہے ساز ہستی کو
دل جگر تار تار کرتا ہے
گُل ہے، گُلشن ہے، اور وہ، دیکھیں
کون کِس کو شِکار کرتا ہے
روزِ محشر وہ محرمِ ہستی
زخم سارے شمار کرتا ہے
اہلِ گُلش نے کی رَپَٹ میری
ذکرِ فصلِ بہار کرتا ہے
تھام لیتی ہیں وحشتیں صاحب
کب کوئی اختیار کرتا ہے
مُجکو لمحہ اَجَل کا دیکھ گیا
اب مِرا انتظار کرتا ہے
شاعر : ابنِ مُنیب
(نوٹ: اپریل 2015 سے میں نے قلمی نام 'ابنِ منیب' اختیار کر لِیا ہے، ان شاءاللہ نئی کاوشیں اسی نام سے پیش کروں گا۔ پہلے اپنے نام 'نوید رزاق بٹ' سے پوسٹ کرتا رہا ہوں)